Friday, June 23, 2017

راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ :۔لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ

گلشن جہاں ،سنبھل



راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ :۔لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ


افسانہ اردو نثر کی سب کی سب سے مقبول ترین صنف ہے جس کو انگریزی زبان میں Short story کہا جاتا ہے۔افسانے سے مراد ایسی نثری کہانی سے ہے،جس میں کسی شخص کی زندگی کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو پیش کیا جائے،جس میں ابتداء،ارتقاء او ر خاتمہ ہو۔لیکن افسانے کا فن اتنا آسان نہیں ہے کچھ معیارات ہیں جو افسانے کی کامیابی کی راہ ہموار کرتے ہیں ،افسانہ مختصر لیکن جامع اور مربوط پلاٹ کے تحت تخلیق کیا جا نا چاہئے۔
یوں تو اردو افسانہ نگاری کا آغاز نصف انیسوی صدی سے ہو چکا تھا لیکن اس کی باقاعدہ اور معیاری بنیاد پریم چند نے رکھی۔پریم چند نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد عطا کی۔پریم چند کے بعد اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی ،سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی یہ چاروں ایسے معتبر افسانہ نگار ہیں ،جنہوں نے فن افسانہ نگاری کو عروج عطا کیا اوراردو افسانہ نگاری میں موضوع کی وسعتیں پیدا کیں۔ ان میں راجندر سنگھ بیدی ؔ امتیازی شخصیت کے مالک ہیں ۔بیدی خارجی احوال سے زیادہ باطن کی واردات کے فنکار ہیں ۔راجندر سنگھ بیدی کے کردار زندگی کی پیچیدگیوں،نامحرومیوں کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدیؔ : ۱۹۱۵۔۱۹۸۴
اردو افسانے کی روایت میں ایک نمایاں نام راجندر سنگھ بیدی ؔ کا ہے۔بیدیؔ ۱۹۱۵ ء کو سیالکوٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ان کی والدہ سیوا دیوی ہندو برہمن تھیں اور والد ہیرا سنگھ ذات کے کھتری تھے۔یہ خاندان وید کو اپنا گرنتھ ماننے کے باعث بیدی کہلاتا ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۲ میں ہوا ابتداء میں انہوں نے محسن لاہوری کے نام سے افسانے لکھے جو مقامی اخبارات ،کالج میگزین میں شائع ہوئے۔ان کے افسانوی مجموعوں میں باسٹھ افسانے،سات مضامین اور خاکے شامل ہیں۔سات مضامین اور سات خاکے ایسے بھی ہیں جو کسی کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ دانہ و دام ۱۹۴۰ میں منظر عام پر آیا۔اس کے بعد گرہن ۱۹۴۳،کوکھ جلی ۱۹۴۹،اپنے دکھ مجھے دے دو،ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ،مکتی بودھ جیسے افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ،ان تمام افسانوں میں بیدی کا انفرادی رنگ نمایاں ہے ،ان کے فن پاروں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں ،ان کے رنگارنگ ماحول اور زندگی کے اتار چڑھاؤ سے ایک جہان معنی خلق ہوا ہے۔۱۹۸۴ کو یہ عظیم فنکار ممبئی ہندوستان میں اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔
راجندر سنگھ بیدی ؔ نے زندگی کی محرومیاں،اتارچڑھاؤ ،پنجاب کے بدحال لوگوں کی بپتا ،نیم تعلیم یافتہ خاندانوں کی رسمیں،رواداریاں ،پرانی دنیا اور نئے خیالات کی آمیزش ،معاشرے میں رائج روایات کے بندھنوں کو بہت قریب سے دیکھا تھااور ان تمام کے نتائج سے بھی بخوبی واقف تھے۔اسی لئے بیدی کے افسانوں میں انسانی زندگی کی تلخیوں اور کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔بیدی ؔ کے افسانوں میں متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت کے کردار اور مزاج کی جو تصویر کشی ملتی ہے ا س کو ان کے افسانہ نگاری کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔راجندر سنگھ بیدیؔ نے زندگی کے اہم تجربات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اورانسانی جزبات و احساسات ،نفسیات کی گرہیں بہت چابکدستی سے کھولی ہیں۔
ان کا محور جنس و غم ہے لیکن بیدی ؔ کے یہاں غم کے اظہار کی صرف ایک صورت ہی نظر نہیں آتی بلکہ ہر کہانی میں نت نئی صورت نظر آتی ہے۔
بیدی کا شاہکار افسانہ ؛لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی د ے بوٹے‘‘
راجندر سنگھ بیدی ؔ کا شاہکار افسانہ لاجونتی ان کے بہترین افسانوی مجموعے اپنے دکھ مجھے دے دو میں شامل پہلا افسانہ ہے۔لاجونتی کا پس منظر تقسیم ہند کے بعد کے حالات ہیں۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے اس افسانے میں ہند و پاک کے بٹوارے کے بعد انسانی زندگیوں میں آئے سیلاب کو قلمبند کیا ہے کہ کس طرح ملک کی تقسیم کے بعد بڑے پیمانے پر ہجرت کا عمل شروع ہو گیاجس کی وجہ سے دونوں ممالک کو مختلف مسائل سے دو چار ہونا پڑا۔افسانہ لاجونتی ان مغویہ عورتوں کے درد و کرب کی روداد بیان کرتا ہے جو بدقسمتی سے تقسیم کے بعد اپنے شوہر وخاندان سے جدا ہو کر سرحد کے اس پار پہنچ گئیں تھیں۔ان مغویہ عورتوں میں سندرلال کی بیوی لاجونتی بھی تھی جو سندر سے دور سرحد کے اس پار چلی گئی تھی۔سندرلال اور لاجونتی کی جدائی کے بعد سندر کو لاجو پر کئے گئے ظلم یاد آنے لگے تھے اور اس کو اپنی غلطیوں کا احساس تھا۔اس کا دل لاجو کے بارے میں سوچ کر مضطرب ہو جاتا تھا کہ لاجونتی اس کا ہر ستم خنداں پیشانی کے ساتھ سہتی تھی ،اب لاجو کہاں ہوگی،جانے کس حال میں ہوگی ‘ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی؟‘وہ کبھی آئے گی بھی کہ نہیں۔اب توسندرلال کی لاجونتی کے واپس آنے کی امید بھی ٹوٹ چکی تھی اور اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔سندرلال کا غم اب دنیا کا غم بن چکا تھا۔اس نے اپنے دکھ سے بچنے کہ لئے خود کو لو ک سیوا میں غرق کر دیا تھا اور مغویہ عورتوں کے سلسلے میں چلائے جا رہے پروگرام ’’دل مین بساؤ‘‘کا سکرٹیری چن لیا گیا تھا۔اس پروگرام کے تحت ہند اور پاکستان کے درمیان اغواشدہ عورتوں کا تبادلہ کیا جاتا اور اجڑے ہوئے گھروں کو بسانے کی مہم چلائی جا رہی تھی۔
بالآخر ایک دن اچانک لال چند نے سندرلال کو بدھائی دی کہ میں نے لاجو بھابھی کو دیکھا ہے یہ سن کر سندرلال کے ہاتھوں سے چلم گر گئی۔سندرلال نے بہت حیرانی سے پوچھا کہاں دیکھا ہے؟لال چند نے اطلاع دی کہ ’’واگہ کی سرحد پر‘‘۔سندرلال کا دل بے چین ہو اٹھا اور وہ سرحد جانے کی تیاری کرنے لگاکہ اسے لاجو کہ آنے کی خبر ملی،وہ گیا اور اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا۔لیکن اب سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔جب سے لاجو ا غوا کے بعد واپس ہوئی تھی تب سے سندرلال کا رویہ ،لاجو کے ساتھ سلوک پہلے کے جیسا بالکل نہ رہا تھا بلکہ وہ لاجو کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتا تھا اور اپنی لاجو کو دیوی کہہ کر پکارتا تھا۔لاجونتی اپنے شوہر کے اس بدلے ہوئے رویےّ کو دیکھ کرحیران و پریشان رہنے لگی تھی۔لاجونتی اپنی ساری روئداد بیان کرکے اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتی تھی لیکن سندرلال کچھ سننے کو تیار نہ تھا وہ ہمیشہ لاجو کو ٹال دیا کرتا تھا کہ ’’چھوڑ ویتی باتوں میں کیا رکھا ہے۔‘‘سندرلال نے اب اپنی بیوی لاجو کو مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا تھا۔لیکن لاجونتی کو اپنا پہلے جیسا شوہر چاہئے تھا،وہ دنیا کے لئے خوش تھی ،لیکن اس کی روح بہت دکھی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا سندرلال اور لاجونتی کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے اور دونوں شک میں مبتلا رہنے لگے۔لاجونتی دل ہی دل میں یہ سوچ کر گھٹتی رہتی کہ اب وہ اپنے شوہر کے لئے لاجو نہیں بن سکتی ،اغوا کے بعد واپسی سے وہ دیوی بن چکی ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے زیر نظر افسانہ میں تقسیم ہند کے بعد درپیش آنے والے مسائل کوقلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کی گرہیں بھی بڑی چابکدستی سے کھولیں ہیں۔مثال کے طور پر افسانے کا ایک اقتباس مندرجہ ذیل ہے:،
’’اور لاجونتی کی من کی من میں ہی رہی۔وہ کہہ نہ سکی ساری بات چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’ دیوی‘کا بدن ہو چکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔وہ خوش تھی بہت خوش۔لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں مین کوئی آہٹ پا کر ایکا ایکی اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
راجندر سنگھ بیدی کی لاجونتی قاری کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر کرتی ہے۔لاجونتی کا کردار ایک زندہ کردار ہے جو انسانی زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں کو منفرد انداز میں ا جاگر کرتی ہے ۔راجندر سنکھ بیدی نے اس کہانی میں بھی اشارے و کنایے سے کام لیا ہے ،ملک کی تقسیم سے پیش آنے والے مسائل کو انفرادی اسلوب میں بیان کیا ہے تو دوسری طرف ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے بھی پردہ اٹھا یا ہے۔افسانہ لاجونتی ان تمام مغویہ عورتوں کے درد ،غم و الم۔کسک ،خلش کو سیدھا قاری کے دل میں اتار دیتا ہے جن کی اغوا سے واپسی کے بعد معاشرے کے لوگوں نے ان کو اپنا تو لیا تھا لیکن وہ دوبارہ بس کر بھی اجڑ گئیں تھیں ۔بیدیؔ کے افسانے لاجونتی کا آخری اقتباس قاری کو اس قدر متاثر کر دیتا ہے کہ لاجونتی ذہن کے گوشے گوشے میں بس جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی نظر میں عورت کا وجود اتنا کمزور ہے کہ جیسے چھوئی موئی کا پودا ہاتھ لگانے سے کمہلاجاتا ہے ویسے ہی کسی دوسرے مرد کے ہاتھ لگانے کے تصور سے بھی عورت دوبارہ کبھی اپنے شوہر کی بیوی نہیں بن پاتی یہی عورت کا وجود ہے ۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے لاجو نتی کے اس کرب کو درج ذیل اقتباس میں بیان کیا ہے:۔
’’۔۔۔۔وہ سندرلال کی وہی پرانی لاجو ہوجانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی ۔لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔سندرلال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ۔۔۔۔لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی۔۔۔اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے پر لاجو نہیں ہو سکتی۔وہ بس گئی‘‘ پر اجڑ گئی۔۔سندرلال کے پاس اس کے آنسو دیکھنے کے لئے آنکھیں تھیں اور نہ ہی سننے کے لئے کان!۔۔۔پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّشکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اسی آواز میں گاتا رہا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہتھ لائیاں کملان نی‘لاجونتی دے بوٹے۔۔۔‘‘
مندرجہ بالا تبصرہ و تزکرہ کے بعد یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ راجندر سنگھ بیدی ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں اور ان کے افسانہ لاجونتی اس کا شاہد ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ افسانہ لاجونتی کس طرح ایک بہتر افسانہ ہونے کے ضابطے مکمل کرتا ہے۔بیدیؔ نے یہ افسانہ یوں تو تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا ہے ۔لیکن اپنی کہانی میں اشارہ و کنایہ کا استعمال کرکے اس افسانے کو زیادہ موئثر بنا دیا ہے۔افسانہ کی کامیابی کا انحصار چند مخصوص عناصر پر ہوتا ہے۔اس میں موضوع کا انتخاب ، تمہید،پلاٹ ،کردار،مکالمے،کہانی کا پس منظر اور اختتام افسانہ قابل غور حیثیت رکھتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے افسانے اور موضوع کا انتخاب:۔ راجندر سنگھ بیدی اپنی کہانیوں کے موضوع کا انتخاب بہت سوجھ بوجھ اور سمجھداری کے ساتھ کرتے ہیں۔افسانہ لاجونتی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔افسانہ لاجونتی پڑھنے کے بعد قاری کو خود بخود ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ بیدی ؔ نے جس موضوع کا انتخاب کیا ،اس کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔اپنی انہیں خصوصیات کے تحت افسانہ لاجونتی اردو ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
افسانہ لاجونتی کا عنوان:۔زیر نظر افسانے کا عنوان اس افسانے کی ہیروئن لاجونتی کے نام پر رکھا گیا ہے ، مکمل افسانہ لاجونتی کے ارد گرد گھومتا ہے لیکن دوسری طرف بیدیؔ نے مجموعی تاثر کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے عنوان ’’لاجونتی‘‘ قائم کیا ہے۔
افسانہ لاجونتی کا آغاز:۔کسی بھی افسانے کی تمہید قاری کے دل و دماغ کو بے حد متاثر کرتی ہے گویا افسانے کی تمہید اتنی موثر ہونی چاہئے کہ پڑھنے والا ان ابتدائی جملوں سے پورے افسانے کے بارے میں ایک گہرا تاثر قبول کرے اور پورا افسانہ پڑھنے کے لئے مضطرب ہو جائے۔راجندر سنگھ بیدی اپنے افسانوں کی تمہید بہت دلچسپ،نت نئے انداز میں تخلیق کرتے ہیں۔افسانہ لاجونتی کی ابتداء ایک پنجابی گیت سے ہوتی ہے:،
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے بوٹے۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ ابتدائی مصرع جو ایک پنجابی گیت ہے ،تجسس کو بنائے رکھتا ہے اور قاری کو مکمل کہانی پڑھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔
افسانہ لاجونتی پلاٹ کے حوالہ سے:۔افسانہ نگار خام مواد کو ترتیب دینے کے لئے جو واقعات کے ربط و تعلق کے مطابق کہانی کا جو ڈھانچہ تیار کرتا ہے اسے پلاٹ کہتے ہیں۔افسانہ لاجونتی کا پلاٹ زندگی کے اصل احوال و واقعات اور تجربات سے مرتب کیا گیا ہے، ،راجندر سنکھ بیدی نے عبارت آرائی سے بھی کام لے کر ایک مربوط اور مسلسل پلاٹ تیار کیا ہے۔
افسانہ لاجونتی اور مکالمے:۔ راجندر سنگھ بیدی کہانی کے موضوع،عنوان،پس منظر اور کرداروں کی نسبت سے مکالموں کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔زیر مطالعہ افسانہ لاجونتی میں جزبات و احساسات اور واقعات کے اعتبار سے کہیں سادہ تو کہیں درد و سوز سے پر مکالمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔جب اغوا سے واپسی کے بعد لاجونتی واپس آتی ہے اور لال چند اس کے شوہر سندرلال کو یہ خبر سناتا ہے تو فطری مکالموں کی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے:۔
لا ل چند،‘‘ بدھائی ہو سندرلال‘‘
سندرلال نے میٹھا گڑچلم میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
لال چند،’’ میں نے لاجو بھابھی کود یکھا ہے‘‘
سندرلال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا۔’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑدیا۔
لال چند ،‘‘ واگہ کی سرحد پر‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا’’کوئی اور ہوگی۔‘‘
یہ مکالمے انسان کے فطری جزبات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سندرلال اپنی بیوی لاجونتی کی واپسی کی امید کھو چکا تھا ۔لیکن جب لال چند اس کو لاجوکی واپسی کی خبر دیتا ہے تو وہ حیران ہوجاتا ہے اور بے ساختہ اس کے دل کی کیفیت مکالموں میں عیاں ہونے لگتی ہے۔
افسانہ لاجونتی کے کردار:۔افسانہ لاجونتی کے کردار بھی اپنے کردار کی نوعیت کے تقاضوں کو مکمل کرتے ہیں۔سندلال اور اس کی بیوی اس افسانے کے مرکزی کردار ہیں۔سندرلال بحیثیت شوہر سخت دل ہوتا ہے اور اپنی بیوی کو مارتا ہے تو دوسری طرف روایتی عورت ہونے کے ناطے لاجونتی اس کے تمام ظلم خنداں پیشانی کے ساتھ سہتی ہے۔لیکن عورت کے حقیقی کردار اور اس کے تئیں معاشرے کے روایات و نظریات لاجو کی اغوا سے واپسی کے بعد بیدیؔ بڑی چابکدستی کے ساتھ پردہ اٹھاتے ہیں۔لاجونتی کا کردار راجندر سنگھ بیدیؔ کی نایاب تخلیق ہے جو اردو افسانہ نگاری کا اہم کردار تسلیم کیا جاتا ہے۔
اختتام افسانہ:۔افسانے کے اختتام پر انسانی نفسیات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے اور افسانہ قاری کے ذہن پر حزنیہ اور فکری کیفیت چھوڑ کر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ افسانہ لاجونتی اس اغوا عورت کی درد بھری داستان پر ختم ہو جاتا ہے جو بس کر بھی اجڑ گئی تھی اور اب وہ اپنے شوہر کی بیوی لاجو کبھی نہ بن سکتی تھی ، وہ تو صرف اس کے لئے اب دیوی بن چکی تھی۔۔پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّشکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اسی آواز میں گاتا رہا۔۔۔
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی د ے بوٹے‘‘
راجندر سنگھ بیدی افسانے کا اختتام کچھ ایسے فطری انداز میں کرتے ہیں جو قاری کو غیر مانوس نہیں معلوم ہوتا اور ایسا لگتا ہے کہ کہانی کا یہ انجام بڑا مناسب اور برمحل ہے۔بیدیؔ افسانے کے تمام عناصر پر ابتدا ء تا انتہا تک قادر رہ کر اپنی منفرد کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں پائی جانے والی معروضیت ان کے جذبے کو معتدل کرتی ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ اپنی کہانیوں میں انسانی کرب و مسائل کو تو پیش کرتے ہیں لیکن ان کے اسلوب کی لطافت کے سبب یہ پریشانیاں اشتہار نہیں بنتی۔بالآخر یہ کہ راجندر سنگھ نے فکر کی گہرائی اور انفرادی اسلوب کے ذریعہ اردو افسانے کو نئی معنویت عطا کی ہے اور افسانہ لاجونتی اس کی عمدہ مثال ہے۔
گلشن جہاں۔ایم۔اے(اردو۔نیٹ)،بی۔ایڈ
gulshanj97@gmail.com
SAMBHAL.244302

1 comment:

  1. مُبارک ہو بہت ہی عمدہ لکھے ہیں۔
    urdumashgala.blogspot.com
    Congrats Alim Sir.

    ReplyDelete