Sunday, June 18, 2017

غزل

غزل

   ہاجرہ نور زریاب ,آکولہ مہاراشٹر 



یارب دیا ہے حسن تو یہ بھی کمال دے
میں ہنس پڑوں تو پھول بھی خوشبو اچھال دے


اندازہ میری پیاس کا جانے گا کوئی کیا
چاہوں تو اک پہاڑ بھی چشمہ نکال دے


ہستی تو نیستی میں بدل جائے گی مگر
ایمان مجھ کو میرے خدا لازوال دے


ماں کی دعائیں ساتھ میں رکھتی ہوں اس لیے 
جو بھی بلائیں آئیں اسے سر سے ٹال دے


شاید وہ میرے فن کو سمجھنے لگا ابھی
ورنہ وہ ایسا کب تھا کہ آنسو نکال دے


کیسا عجیب دوست ہے جب بھی ملوں اسے 
میرے ہی سامنے مجھے میری مثال دے


میں مانگتی ہوں تجھ سے دعا اے مرے خدا
جب بھی قلم اٹھاؤں انوکھا خیال دے


زریاب تو بشر ہے مگر بس کرم کی بات
رگ رگ میں تو ہی تھوڑا سا جاہ و جلال دے


No comments:

Post a Comment